Sunday 27 November 2011

سیّد قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ کی دورانِ قید لکھی گئی نظم کا اردو ترجمہ


نقوشِ راہ
مجاہدِجلیل سید قطب شہیدرحمہ اللہ کو اللہ نے دوسرے فطری کمالات کے ساتھ طبعِ موزوں بھی عطا فرمائی تھی۔ اپنے قید وبند کے اس آخری دور میں جس کا اختتام اُن کی شہادت پر ہوا۔ آپ نے اپنے وارِداتِ قلب کو اشعار کے حسین پیکر میں نمایاں کیا۔ اسی کو حضرت یونس قنوجی نے اردو نظم کا پیرہن دے دیا ہے۔


مرے رفیق!  مرے ہم سفر! مرے ہمدم
حِصار گوشۂ زنداں میں بھی ہے تو آزاد

یہ بیڑیاں، یہ سلاخیں ،یہ سخت زنجیریں
ہلاسکیں گی نہ قصرِ یقین کی بُنیاد

اگر خدا کی رضا ہے تری متاعِ سفر
توپھر ضمیر فروشوں کے مکر کا غم کیا

سیاہ روز لٹیروں کی گھات کا کیا خوف
کماں بدوش فلک کے ستم کا ماتم کیا

تو وہ مسافر ِ شب ہے کہ جس کے سینے میں
سحر فروز ہزاروں چراغ روشن ہیں

مجھے دبا نہ سکے گی دبیز تا ریکی!
کہ تیری فکر سے لاکھوں دماغ روشن ہیں

تو اپنی روح کے گوشوں کو تابدار تو کر
اُفق کی راہ ِ گزر تیرے انتظار میں ہے

لرزرہے ہیں سُتوں، شب کی بارگاہوں کے
کہ اک تازہ سَحَر تیرے انتظار میں ہے

تجھے فریب کے تیروں سے زخم پہنچا ہے
مگر یہ تیر ہیں، خود پست فطرتی کا شکار

یہ ٹھوس حقیقت ہے طمطراقِ شہی
ذلیل ہوتے ہی کرتا ہے سخت اوچھے وار

یہ تیر چھید تو سکتے ہیں تیرے بازو کو
مگر یقین کا پرچم جُھکا نہیں سکتے

اُٹھا تو سکتے ہیں فتنے بہت ہَوس کے غلام
مُجاہدوں سے نگاہیں ملا نہیں سکتے

مرے رفیق ! یہ رِستا ہوا لہو تیرا
نشان سلسلۂ سعئ  َکامراں بھی تو ہے

اگر کبھی تیری پلکوں پہ میری یاد کے ساتھ
تیرے خلوص کی گرمی کا نور پھیلا ہو!

اگر کبھی تیرے دامن میں بے بسی پہ مِری
بہ شکلِ اشک تیرے دل  کا درد مچلا ہو!

تو میری خاک کے ذرّوں میں بھی تپش بھردے
تُو میری خاک کے ذرّوں سے آفتاب اُگا

سیاہ رات کے سینے کو چیرنے کے لیے
زمیں سے تابہ فلک اَن گِنت شہاب اُڑا

عظیم تر ہیں مقاصد بعید تر منزل
بھٹک نہ جائے اندھیرے میں کارواں اپنا

قدم قدم پہ نئے حوصلوں کی شمع جلے
ہر ایک بام سے اونچا  رہے نشاں اپنا

اگر میں راہِ عزیمت میں کام آبھی گیا
تو غم نہیں کہ یہ معراج ہے اصولوں کی

جوارِ رحمت ِحق، سایۂ نعیم بَہِشت
بَہا ہے میرے لہو کے فَسُردہ پھولوں کی

ابھی جواں ہیں مرے حوصلے ، مری تگ و تاز
ابھی لہو میں حرارت ہے دل میں طوفاں ہے

ابھی نظر میں تھکن کے نہیں کوئی آثار
ابھی جبیں پہ حیات آفریں چِراغاں ہے

مُحیط اگرچہ ہیں تاریکیاں فضاؤں پر
اگرچہ رات کا دامن کثیف تر ہے ابھی

مگر یقین ہے مجھے کوئی شوخ و شنگ کِرن
فضاء کو صبح کی تابانیوں سے بھر دے گی

اگر میں راہِ عزیمت میں کام آبھی گیا
تو میں شہید ہوا، میری موت کا غم کیا

مرے رفیق! ترا فرض ہے کہ میرے بعد
نوید صبح  سے ملتا رہے قدم تیرا

زہے نصیب کہ ہم پر یہ فرض عائد ہے
اصولِ حق و صداقت جہاں میں عام کریں

کریں بلند صلاح و فلاح کا پرچم
پیامِ صبرو شہادت جہاں میں عام کریں

ادائے فرض کی راہوں میں کتنے دل والے
لہو میں ڈوب کے شمع وفا جلا بھی چکے

نہ جانے کتنے مسافر مرے شریک ِسفر
بڑھا رہے ہیں قدم مشعلِ حیات لیے

کٹھن ہی منزلِ صبرورضا سہی لیکن
یہ ٹھان لی ہے کہ اس راہ سے گزرنا ہے

یہ قتل گاہِ شہیدانِ عشق ہے تو یہاں
بڑے سکون ، بڑے حوصلے سے مرنا ہے

مرے رفیق! یہی رہ گزر ہے جس کے لیے
نویدِ فتح ہے ، اعلانِ کامرانی ہے

لگائی جس نے یہاں نقدِ جاں تو اس کے لیے
ریاضِ خُلد ہے اور عیش ِجاوِدانی ہے

) سید قُطب شہیدرحمہ اللہ، ترجمہ: یونس قنوجی (

2 comments:

  1. بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  2. شہید کے الفاظ کی تاثیر ہی الگ ہوتی ہے۔

    ReplyDelete

زیل میں اپنی رائے کا اظہار کیجیے